Sana Yousaf Ka raz samny Agaye
ٹک ٹاک ہماری نوجوان نسل کو اخلاقی مذہبی بے راہ روی کا شکار کررہا ہے گذشتہ کچھ عرصے میں بہت سے ایسے واقعات تسلسل سے پیش آ رہے ہیں جو اس حقیقت کو ثابت کرتے ہیں ارباب اختیار اس بارے میں اسلامی معاشرت کے مطابق قانون سازی کریں یہ ہمارے اپنے بچوں کا معاملہ ہے
0r
انا للہ و
انا الیہ راجعون
ماٸیں بچیوں کی اچھی تربیت کریں اسے دین اسلام سے روشناس کراٸیں اسے بتاٸیں کہ ہمارا مذہب کیا سکھاتا ہے ہمارے مذہب میں بیٹیوں کو رحمت بنایا گیا ہے بیٹیوں کی عزت و حرمت گھر کے لیۓ مقدم ہے بیٹیاں سج دھج کر اپنے والدین سے پوچھیں کہ میں کیسی لگ رہی ہوں نہ کہ لوگوں سے ۔ بیٹیوں کے حسن سے اسکی فیملی خیرہ ہو نہ کہ عوام
اللہ پاک سب کی بہن بیٹیوں کی عزت و حرمت کی حفاظت فرماۓ آمین ثم آمین
ٹک ٹاکر ثناء یوسف کے قاتل کی اصل تصویر سامنے آگئی
اللہ پاک سب کی بہن بیٹیوں کی عزت و حرمت کی حفاظت فرماۓ آمین ثم آمین
آج رات H-8 میں نماز جنازہ کے بعد ثنا یوسف کا بظاہر ہلکا تابوت چترال روانہ ہوا مگر پیچھے بہت بھاری سوالات چھوڑ گیا۔
ہلکی سی پھوار میں بھیگی فضا میں سوگواری اور خوف کی آمیزش تھی۔
ج رات H-8 میں نماز جنازہ کے بعد ثنا یوسف کا بظاہر ہلکا تابوت چترال روانہ ہوا مگر پیچھے بہت بھاری سوالات چھوڑ گیا۔
ہلکی سی پھوار میں بھیگی فضا میں سوگواری اور خوف کی آمیزش تھی۔
خوف اس بات کا کہ کیا سماج اس حد تک خوفناک ہوچکا ہے کہ مائیں بچیاں جننا بند کردیں؟ بچیاں انسان سمجھے جانے اور جینے دینے کا تقاضا کرنا چھوڑ دیں؟
آج رات H-8 میں نماز جنازہ کے بعد ثنا یوسف کا بظاہر ہلکا تابوت چترال روانہ ہوا مگر پیچھے بہت بھاری سوالات چھوڑ گیا۔
ہلکی سی پھوار میں بھیگی فضا میں سوگواری اور خوف کی آمیزش تھی۔
خوف اس بات کا کہ کیا سماج اس حد تک خوفناک ہوچکا ہے کہ مائیں بچیاں جننا بند کردیں؟ بچیاں انسان سمجھے جانے اور جینے دینے کا تقاضا کرنا چھوڑ دیں؟
مجھے ثنا یوسف کے والد کی آنکھوں میں آنسو اور آنسوؤں میں کچھ کرچیاں تیرتی نظر آئیں۔ یہ کرچیاں ثنا جیسی باصلاحیت بیٹی کا باپ ہونے کے مان کی کرچیاں تھیں جو اب ٹوٹ کر بکھر چکا تھا۔
بڑے ناز سے پالی ہوئی بیٹی کے تابوت کے ساتھ کھڑا یہ شکستہ اور بکھرا ہوا شخص سماجی کارکن ہے، تھانے کچہریوں میں کسی چترالی بیٹی سے ہونے والے ناحق سلوک پر انصاف مانگ رہا ہوتا ہے۔ ان کے تحفظ کی کوششیں کررہا ہوتا ہے۔
مگر آج وہ شاید اپنی بیٹی کے لیے انصاف بھی نہیں مانگ رہا تھا۔ ان کی آنکھوں میں انصاف سمیت کسی بھی تقاضے سے زیادہ بے بسی کا تلاطم تھا۔
ایسی بے بسی جس کا تجربہ یہاں ہر باہنر اور بااختیار بیٹی کے باپ کو اس جیسی درندگی کے سامنے ہوتا ہے۔
ثنا کا ایک قا تل وہ تھا جو گھر میں داخل ہوا اور گولی مار دی۔ دوسرے ان گنت قا تل وہ ہیں جن کی حمایت اس عمل کو حاصل ہے۔ جنہوں نے ان کے تعارف میں 'ٹک ٹاکر' کے لفظ کو کافی اور قتل کے لیے جواز سمجھا۔
ایسے میں کس بات کا انصاف؟ ایک قا تل کو پھانسی چڑھانے سے اگلی ثنا یوسف محفوظ نہیں رہ سکتی۔ یہاں ثنا جیسے اور پھول کھلنے ہیں اور ہمارے ہاتھوں کچلے جانے ہیں۔
بتانے والوں نے ہمیں یہ تو بتایا ہے کہ عرب سماج میں بیٹیاں زندہ درگور ہوتی تھیں مگر یہ نہیں بتایا کہ آج بھی زندہ ہی درگور ہوتی ہیں۔
سینکڑوں سالوں کی یہ مسافت بھی ہماری عورت دشمن ذہنیت کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔
مگر ثنا! ہماری بچی! میں اپنی بے بسی کو جواز نہیں دے رہا۔ میں تم سے معافی بھی نہیں مانگ رہا۔
مجھ جیسا شخص تم جیسے پھولوں کو کھلنے کی دعا تو دے سکتا تھا لیکن کھلنے کے بعد دستِ عدو سے تحفظ کی ضمانت نہیں دے سکتا۔
Comments
Post a Comment